سنہ 1974 میں فیض پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اس وفد میں شامل تھے جو بنگلہ دیش بننے کے بعد پہلی بار وہاں گیا تھا۔
فیض، شیخ مجیب الرحمٰن کو پہلے سے جانتے تھے۔ جب وہ اُن سے ملے، تو انھوں نے کہا کہ ہمارے بارے میں بھی کچھ لکھیے جس پر بنگلہ دیش سے واپس آنے کے بعد انھوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے اصرار پر معروف نظم کہی تھی:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیئے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
فیض، شیخ مجیب الرحمٰن کو پہلے سے جانتے تھے۔ جب وہ اُن سے ملے، تو انھوں نے کہا کہ ہمارے بارے میں بھی کچھ لکھیے جس پر بنگلہ دیش سے واپس آنے کے بعد انھوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے اصرار پر معروف نظم کہی تھی:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیئے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

0 comments so far,add yours