ناصر کاظمی نے جو دکھ بیان کیے ہیں وہ سارے دکھ ہمارے جدید دور کے دکھ ہیں ناصر نے استعارے لفظیات کے پیمانے عشقیہ رکھے لیکن اس کے باطن میں اسے ہم آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں۔ محض عشق نہیں بلکہ ہجرت ، جدید دور کے مسائل ،اور دوسری بہت سی چیزیں ان کی غزلوں میں ملتی ہیں.

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

کانٹوں کے ویراں جنگل میں
میں کس مشکل سے پہنچا تھا

یہ جنگل اور تیری خوشبو
کیا میں سپنا دیکھ رہا تھا؟

آج وہ آنکھیں بجھی بجھی تھیں
میں جنھیں پہروں ہی تکتا تھا

کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا

میں بھی مسافر، تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا

تو نے بھی کوئ بات نہ پوچھی
میں بھی تجھے کچھ کہہ نہ سکا تھا

اک اجڑے سے اسٹیشن پر
تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا

تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا

تیرے ہاتھ کی چاۓ تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا

کیسے کہوں روداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا.

"ناصر کاظمی"


0 comments so far,add yours