دن کا پُھول ابھی جاگا تھا
دُھوپ کا ھاتھ بڑھا آتا تھا
سُرخ چناروں کے جنگل میں
پتھر کا اِک شہر بسا تھا
پیلے پتھریلے ھاتھوں میں
نیلی جھیل کا آئینہ تھا
ٹھنڈی دُھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا
دُھوپ کے لال ھرے ھونٹوں نے
تیرے بالوں کو چُوما تھا
تیرے عکس کی حیرانی سے
بہتا چشمہ ٹھہر گیا تھا
تیری خموشی کی شہ پا کر
میں کتنی باتیں کرتا تھا
آنکھوں میں تِری شکل چُھپائے
میں سب سے چُھپتا پھرتا تھا
بُھولی نہیں اُس رات کی دھشت
چرخ پہ جب تارا ٹوُٹا تھا
یوُں گُزری وہ رات بھی جیسے
سپنے میں سپنا دیکھا تھا
ناصر کاظمی
"پہلی بارش"
دُھوپ کا ھاتھ بڑھا آتا تھا
سُرخ چناروں کے جنگل میں
پتھر کا اِک شہر بسا تھا
پیلے پتھریلے ھاتھوں میں
نیلی جھیل کا آئینہ تھا
ٹھنڈی دُھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا
دُھوپ کے لال ھرے ھونٹوں نے
تیرے بالوں کو چُوما تھا
تیرے عکس کی حیرانی سے
بہتا چشمہ ٹھہر گیا تھا
تیری خموشی کی شہ پا کر
میں کتنی باتیں کرتا تھا
آنکھوں میں تِری شکل چُھپائے
میں سب سے چُھپتا پھرتا تھا
بُھولی نہیں اُس رات کی دھشت
چرخ پہ جب تارا ٹوُٹا تھا
یوُں گُزری وہ رات بھی جیسے
سپنے میں سپنا دیکھا تھا
ناصر کاظمی
"پہلی بارش"

0 comments so far,add yours