ہوا کی بالکونی سے
ہوا سیٹی بجاتی ہے
چلو چلنے کا وقت آیا
درختوں سے ہزاروں خُشک پّتے ٹوٹتے ہیں
اور اُس کے ساتھ اُڑتے ہیں
وُہ شاید خود نہیں اُڑتے۔۔۔۔۔۔ ؟
قضا اُن کو اُڑاتی ہے
ہوا سیٹی بجاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ اُڑتے ہوئے پّتے
گُلستاں کے کسی نامہرباں گوشے میں تھوڑی دیر کو رُکتے ہیں
پیلی گھاس کے اُس اجنبی صحرا کو تکتے ہیں
جو اُن کے اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن کے آشیاں کے درمیاں پھیلا ہُوا ہے
اور جس کی حد نہیں ملتی
خزاں اس اجنبی صحرا کی حدّ ِ ممکنہ سے اُن کی جانب دیکھتی ہے
اور ایک فاتح کی صُورت مُسکراتی ہے
ہوا سیٹی بجاتی ہے
ہوا سیٹی بجاتی ہے تو یہ رُکتے ہوئے پّتے کسی انجان سی دہشت کے ڈر سے کپکپاتے ہیں
لرز کر سَر جُھکاتے ہیں
گُلستاں کے کسی نامہرباں گوشے کی پستی سے
ہَوا اِن کو اُٹھاتی ہے
ہَوا اِن کو اُٹھا کر شہر کی بےمُدّعا سڑکوں پہ لاتی ہے
میں اِن پتوں کو جب شہروں کی سڑکوں پر بکھرتے دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ !
’ادھورے خُواب کی صُورت
یہ بےکل بےنوا پّتے جب اُڑتے ہیں تو اپنے دل میں کیا کیا سوچتے ہونگے؟
سفر کے زخم کا کچھ تو مداوا سوچتے ہونگے؟‘‘
میں اپنے پاؤں سے لِپٹا پُوا اِک مُضطرب پتہ اُٹھاتا ہوں
اور اُس سے پُوچھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ !
مری باتیں وُہ سُنتا مگر۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں کہتا
بس اِک زخمی نگاۃ سے میری جانب دیکھتا ہے
دُکھ بھرا چہرہ اُٹھاتا ہے
اچانک وقت رُکتا ہے۔۔۔۔۔۔
میں اُس پّتے کے چہرے میں خود اپنا عکس پاتا ہوں
کسی انجان سی دہشت کے ڈر سے کپکپاتا ہوں
مری گردن پہ جیسے چھپکلی سی سرسراتی ہے
فضا میں اجنبی سے درد کا کُہرا اُبھرتا ہے
نمی سی پھیل جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہَوا سیٹی بجاتی ہے
ہوا کی بالکونی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہَوا سیٹی بجاتی ہے
ہوا سیٹی بجاتی ہے
چلو چلنے کا وقت آیا
درختوں سے ہزاروں خُشک پّتے ٹوٹتے ہیں
اور اُس کے ساتھ اُڑتے ہیں
وُہ شاید خود نہیں اُڑتے۔۔۔۔۔۔ ؟
قضا اُن کو اُڑاتی ہے
ہوا سیٹی بجاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ اُڑتے ہوئے پّتے
گُلستاں کے کسی نامہرباں گوشے میں تھوڑی دیر کو رُکتے ہیں
پیلی گھاس کے اُس اجنبی صحرا کو تکتے ہیں
جو اُن کے اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن کے آشیاں کے درمیاں پھیلا ہُوا ہے
اور جس کی حد نہیں ملتی
خزاں اس اجنبی صحرا کی حدّ ِ ممکنہ سے اُن کی جانب دیکھتی ہے
اور ایک فاتح کی صُورت مُسکراتی ہے
ہوا سیٹی بجاتی ہے
ہوا سیٹی بجاتی ہے تو یہ رُکتے ہوئے پّتے کسی انجان سی دہشت کے ڈر سے کپکپاتے ہیں
لرز کر سَر جُھکاتے ہیں
گُلستاں کے کسی نامہرباں گوشے کی پستی سے
ہَوا اِن کو اُٹھاتی ہے
ہَوا اِن کو اُٹھا کر شہر کی بےمُدّعا سڑکوں پہ لاتی ہے
میں اِن پتوں کو جب شہروں کی سڑکوں پر بکھرتے دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ !
’ادھورے خُواب کی صُورت
یہ بےکل بےنوا پّتے جب اُڑتے ہیں تو اپنے دل میں کیا کیا سوچتے ہونگے؟
سفر کے زخم کا کچھ تو مداوا سوچتے ہونگے؟‘‘
میں اپنے پاؤں سے لِپٹا پُوا اِک مُضطرب پتہ اُٹھاتا ہوں
اور اُس سے پُوچھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ !
مری باتیں وُہ سُنتا مگر۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں کہتا
بس اِک زخمی نگاۃ سے میری جانب دیکھتا ہے
دُکھ بھرا چہرہ اُٹھاتا ہے
اچانک وقت رُکتا ہے۔۔۔۔۔۔
میں اُس پّتے کے چہرے میں خود اپنا عکس پاتا ہوں
کسی انجان سی دہشت کے ڈر سے کپکپاتا ہوں
مری گردن پہ جیسے چھپکلی سی سرسراتی ہے
فضا میں اجنبی سے درد کا کُہرا اُبھرتا ہے
نمی سی پھیل جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہَوا سیٹی بجاتی ہے
ہوا کی بالکونی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہَوا سیٹی بجاتی ہے

0 comments so far,add yours