ناصر
کاظمی کی غزل میں دکھ کی ہلکی سی سلگتی ہوئی آنچ نظر آتی ہے۔ دکھ میں
چھلبلاہٹ ہوتی ہے غصہ ہوتا ہے لیکن ناصر کے ہاں یہ چیزیں نہیں بلکہ دبی دبی
کیفیت موجود ہے جو کہ میر کا خاصہ ہے۔ لیکن ناصر میر کی تقلید نہیں کرتا
بلکہ صرف متاثر نظرآتے ہیں ۔
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں
مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں
میرا دیا جلائے کون
میں ترا خالی کمرہ ہوں
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں
تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں
آتی رت مجھے روئے گی
جاتی رت کا جھونکا ہوں
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
"ناصر کاظمی"
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں
مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں
میرا دیا جلائے کون
میں ترا خالی کمرہ ہوں
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں
تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں
آتی رت مجھے روئے گی
جاتی رت کا جھونکا ہوں
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
"ناصر کاظمی"

0 comments so far,add yours